الکتاب اللہ کے الفاظ جو روح القدّس نے محمدﷺ تک پہنچائے ۔ دوستو ! تاکہ محمدﷺ انسانوں پر اللہ کی ہدایات تلاوت کریں اور انہیں الکتاب کا علم دیں جس سے اُن کاتزکیہ ہو اور وہ پاک ہوجائیں۔
دوستو ! میرے کسی بھی بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 20 مئی، 2019

فہم الکِتاب (القُرآن ، الھدیٰ اور الفُرقان)

1993 سے  الکتاب کے ساتھ جڑے رہنے سے  جو میرا فہم بنا ہے  وہ اِس تصویر میں عیاں ہے ، ممکن ہے کہ آپ مجھ سے متفق نہ ہوں ، لیکن اللہ کی آیات سے متفق نہ ہونا یقیناً آپ کے اللہ کی آیات پر ایمان کو  دوسرے سمت لے جاسکتا ہے ، ایسی سمت جس پر  صدیوں سے مسلمان قوم رواں دواں ہے کیوں ؟
کیوں کہ ہم نے اللہ  کے بجائے  انسانوں میں سے کچھ لوگوں کو اپنا مولانا  بنا لیا ہے ۔


قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿9:51 
 اور اِن انسانی مولاناؤں نے اللہ کے عربی الفاظ عجمی میں تبدیل کرکے  ، اُن کے مواضع تبدیل کردیئے ہیں ۔ جن کی وجہ سے  اللہ کی ہدایت  نہیں رہی شیطانی ہدایت بن چکی ہے ۔ 

   اِس بلاگ فہم الکتاب  میں  میں صرف اللہ کی آیات پیسٹ کروں گا اور اُن آیات سے اخذ کیا ہوا اپنا فہم بتاؤں گا ترجمہ نہیں  ۔
فیس بُک   دوستوں   ، کو  روح القدّس  کی طرف سے محمدﷺ کو دی جانے والی اللہ کی آیا ت  کی طرف  رجوع کروانے کےلئے،  جب میں نے  اللہ کی آیات پیسٹ کیں تو اُن  کی شدّت سے خواہش تھی کہ  ترجمہ بھی پیسٹ کیا جائے۔
 کیوں کہ، بہت سے فیس بُک کے دوستوں نے اپنے مختلف مولاناؤں  کے تراجم میں مہارت حاصل کی یا اُنہیں  اپنے بات مجادلہ یا مبادلہ کے لئے محفوظ کر لئے ۔
جب اُنہیں  اللہ کی آیات پیسٹ کرکے پیش کی جاتیں تو وہ ٹھٹک جاتے ۔
 لیکن میں ترجمہ پیسٹ نہیں کرتا ۔
 وجہ یہ ہے کہ ترجمہ پیسٹ کرتے ہی،  میں بھی کسی فرد کے قبضے میں چلاجاتا ہوں ۔
 اور   ترجمہ  پر  مجادلہ شروع ہو جاتا ہے اور اللہ کی آیت پسِ پُشت پھینک دی جاتی ہے ، کیوں کہ  ترجمہ ، اُن کے مولانا   کے ترجمے کے مخالف ہوتا  ہے یا مواقف ۔
جب میں اپنا ترجمہ کرتا   تو اُن کا اعتراض ہوتا کہ یہ ترجمہ تو نہ ہوا،
"آپ نے  اللہ کے عربی الفاظ ہو بہو   لکھ کر اُن  پر اردو کا نمک چھڑک دیا ہے" ۔ 

جیسے بالا آیت کا میرا ترجمہ :
روح القدّس  کی طرف سے محمدﷺ کو دیا جانے والا اللہ کا حکم :

میرا فہم : صرف اللہ    الْمُؤْمِنُونَکا مَوْلَانَا    ہے :

قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿9:51
میرا ترجمہ :   کہہ !  ہمیں کوئی  صِيبَ نہیں پہنچے گی  ، سوائے  جو   اللَّـهُ نے  ہمارے لئے   كَتَبَ کر دی ہے ، وہ  ہمارا   مَوْلَانَا ہے ۔ اور    الْمُؤْمِنُونَ کو اللَّـهِ   پر  تَوَكَّلِکرتے رہنا چاھئیے ۔ 
  صِيبَ (ص وب (55/76))،    اللَّـهُ (ا ل ہ (1967/2963))،    كَتَبَ (ک ت ب (279/319))، مَوْلَانَا (و ل ی)، الْمُؤْمِنُونَ (ا م ن(201/231))  اور    تَوَكَّلِ (و ک ل(61/70)) 
اِن کا ترجمہ نہ کرنے کی وجوہ یہ ہیں :
1- یہ الفاظ اردو میں بھی شامل ہیں اور روز مرہ استعمال کئے جاتے ہیں  سوائے
صِيبَ  (ص وب (55/76)) کے ،    الکتاب میں  ص و ب     مادے سے،  اللہ کے بنائے جانے والے  کل 76 الفاظ ہیں جو 55 آیات میں رکھے گئے ہیں ۔ جس سے ا ردو لفظ  مصیبت  بنتا ہے ۔کسی بھی قاعدے کے تحت اِسے خوشحالی کا مفہوم نہیں دیا جاسکتا ۔
2- اِن الفاظ کو ہوبہو اپنے پورے اعراب کے ساتھ لکھنے کا مقصد کہ،   دوستوں کو   اللہ کے الفاظ کا علم آئے ، اور اُن کے اعراب (صوتی ادائیگی) کا علم آئے ۔ خاص طور پر یہ سمجھ آئے کہ صفت  کے آخر میں اعراب  سے  ، صفت کس (ضمیر) سے موسوم ہوتی ہے  ۔اور فعل کے ساتھ  ضمیر لگانے سے فعل  کا مفعول  کون (مذکر یا مؤنث ) ہوگا ؟ یعنی  اللہ کی گرائمر اُن کے ذہن میں     سادہ  طریقے سے اَپ ڈیٹ (عُسْرً سے يُسْرً  )  ہوتی رہے ۔ جس کے بعد       وہ اللہ کے الکتاب میں دیئے گئے  عربی  الفاظ  کے ساتھ       مُّدَّكِرٍ کی صفت  سے موصوف ہوتے جائیں گے ۔

3- وہ الفاظ جِن سے اللہ کی آیات کے مواضع تبدیل ہوجائیں   ، اُنہیں  ترجمے میں شامل نہ کیا جائے ، کیوں کہ یہی الفاظ ہیں ۔جِن کی وجہ سے ہم مختلف تراجم میں فرق پاتے ہیں ۔ 
4- ترجمے پر لوگ آنکھیں بند کرکے یقین  کر لیتے ہیں لیکن فہم پر لوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ کہ آپ کا یہ فہم کیسے بنا ؟ جس کے لئے الکتاب میں موجود دیگر  مکمل آیات کے حوالے   (نہ  کہ اللہ کی آیات کے اپنے منتخب کردہ جملے )  سے بتایا جاسکتا ہے کہ  یہ فہم کیسے بنا ؟
4- اللہ کی آیات کی ترتیل جو روح القدّس نے محمدﷺ کو حفظ کرائی اور محمدﷺ نے اللہ کے منتخب افراد کو  حفظ کروائی  ۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ  سے لے کر  مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک  حفّاظ کے ذہنوں میں  آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ کی  طرح محفوظ ہے ۔ 
 مُتَشَابِهَاتٌ  میں درج ہے  ، کہ روح القدّس نے اللہ کی طرف سے محمدﷺ پر پہلی آیت      اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿96:1  بتائی ۔ جو الکتاب میں  6,107  نمبر پر ہے ۔
  اور آخری آیت. . .    الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا . . ﴿5:3   بتائی ۔ جو الکتاب میں  702  نمبر  کی آیت کا ایک زُبَرَ  ہے ۔
2001 میں فہم القرآن کی ایک میٹنگ  میں ایک دوست  شمس الحق اعوان  نے تجویز پیش کی کہ اگر ہم  محمدﷺ پر  انسانی لکھی ہوئی کتابوں کے مطابق  نازل ہونے والی آیات کو اُسی انداز میں ترتیب دے کر  القرآن بالترتیب نزول  بنائیں  اور پھر بچوں کو حفظ کروائیں ، تو شائد ساری دنیا  میں مسلمان ایک امُت بن جائیں ۔ 
" ایک تو ممکن ہے نہ ہوں ، لیکن ایک فرقے کا مزید اضافہ ہوجائے گا " میں نے جواب دیا  " اور جہاں تک رہا حفظ کروانے کا  ، یہ کام اللہ کا ہے  ۔جسے آپ یا کوئی اور تبدیل نہیں کرسکتا "

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿15:9
صرف ہم ہیں  الذِّكْرَ کے نازل کرنے والے اور صرف  ہم اُس کے لئے       حَافِظُونَ ہیں ۔

"الکتاب " کو سمجھنے کےلئے میں نے اِن الفاظ کا فہم سمجھا ، کہ کس لفظ کا کیا  مادہ بنتا ہے اور اُس کا بنیادی فہم کیا  ہو سکتا ہے ۔ یہ میرے لئے اللہ کے الفاظ کو سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوا ۔ رنگوں کا استعمال میری مجبوری ہے ، اپنی وضاحت کے لئے ۔ کہ کن نکات کی یہاں ۔ کس اعتبارِ ترتیل و تصریف سے اہمیت ہے ۔
 گرائمر بس اتنی معلوم ہو ، کہ: 
1- انسان کا ہر عمل  فعل کہلاتا ہے ۔ جیسے ۔بلغ
2-   جو فعل  عمل پذیر ہوا کرنے والے کی صفت  بن گیا۔جیسے ۔مبلغ
3- تنوین لگائیں اور یہ اسم بن گیا ۔مبلغ
4-اگر دو یا دو  سے زیادہ افراد  کے درمیان  فعل کا حکم ہو تو  ضمیریں (  ی ۔ نا ، ک ۔  کم ۔ ہ-  ھم )  وجود میں آئیں گی ۔
5-ضمیریں فعل میں جڑ کر ،مکمل  جملہ بناتی  ہیں۔  بلغ نا ۔   بلغ (فعل)        نا (ضمیر)  ۔
6- زمانہ (ماضی ، حال و مستقبل)۔   فعل کی حالت کو تبدیل  کرے گا۔   بلغ نا(ماضی)  ۔ یبلغ نا (مضارع) ۔ اللہ کی عربی میں   زمانہ ماضی اور مضارع ( حال ، حال جاری اور مستقبل ) پر مشتمل ہوتا ہے ۔  الکتاب  ایک  زندہ کتاب ہے  ، لہذا اِس میں اللہ کا  ماضی ، ماضی بعید نہیں  اور مضارع کو ماضی میں منتقل کرنا ، اللہ کی آیات کے مَوَاضِعِ   نہایت جاہلانہ طریقے سے تبدیل کرنا ہیں ۔جس سے اللہ کی آیات  عربی کے بجائے عجمی میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ 
7- اِن جملوں  کو جوڑنے والے حروف    ۔ وبلغ ۔ لیبلغ 
8- فعل کو انجام دینے والے  مذکریا  مؤنث    ۔  بَلَغَتَ  ۔   بَلَغَتِ
اگر یہ سادہ   8  اصول سمجھ لیں تو یوں سمجھیں کہ آپ الکتاب کے فہم سے جڑ گئے ۔
 سب سے اہم :
 آپ کے ذہن میں اللہ سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے جو سوال آئیں وہ لکھ لیں اور اُن کا جواب "الکتاب " میں تلاش کریں ۔ جواب آپ کو آج نہیں تو کل "الکتاب " سے عربی میں ضرور مل جائے گا ۔ لیکن اگر آپ تراجم کے ماہر ہیں تو شائد آپ کو کبھی نہ ملے ۔
 فیس بُک کے بہت دوستوں کے ذاتی پیغامات ، ملے ،
" آپ حافظ نہیں ، تو   فوراً آیت کیسے نکال لیتے ہیں ؟"
جواب: یہ پکچر المعجم المفہرس کی ہے ، یہ میں نے کوئیٹہ سے 100 روپے کی 1994 میں لی تھی ۔ اِس میں تمام الفاظ عربی حروفِ تہجی میں ۔ لکھے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ اِس صفحے کو بڑا کر کے دیکیں تو دائیں طرف " ب ل غ " مادے سے بننے والے الفاظ ہیں ۔
 جو اِس صفحے میں ہیں اور پہلے کالم کا پہلا لفظ  بلغ ہے جو ، "الکتاب " میں 10 بار آیا ہے اور جن 10 جگہ آیات میں آیا وہ اِس " المعجم المفہرس " میں درج ہیں 
 اور سامنے دوسرے کالم میں ھائی لائٹر سے انڈر لائن کئے ہوئی آیات دیکھیں یہ 6 ہیں ۔
 جن میں لفظ يبلغ آیا ہے ۔ اگر آپ اِن الفاظ پر کلک کریں ، تو آپ کو سمجھ آجائے گا کہ معجم (ع ج م ) کِسے کہتے ہیں اور اُس کی فہرست کیسے ترتیب دی گئی ہے ۔ 
 بلغ  (10) ،بلغا  (1) ،  بلغت  (5) ، بلغن  (4)، بلغنا (1) ،  بلغني  (1)، بلغوا  (2) ،   ابلغ  (2) ،  تبلغ (1)،  لتبلغوا  (4) ، يبلغ (5)   ليبلغ (1) ، يبلغا  ، يبلغن  (1)، يبلغوا  (1) ، بلغت (5)  ، ابلغكم (1)  ،يبلغون   (1)، ابلغتكم  (3) ، ابلغوا  (1) ، ابلغه (1) ،  بالغ (2)،   ببالغيه (1)،  بالغوه (1) ، بالغيه  (1) ، بالغة (2) ،البالغة (1) ، بليغا  (1)،  بلاغ  (2) ،   البلاغ (11)، 
 بالا اللہ کے الفاظ پر کلک کرنے سے ، جو کمپیوٹر پر جو   ویب پیج آئے گا وہ ،" اوپن برھان " نامی  ویب سائیٹ  کا  ہے ۔  یہی  معجم آپ تنزیل     نامی ویب سائیٹ پر بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

الکتاب ،   بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ  سے لے کر  مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک انسانی ہدایت کے لئے اللہ کی ترتیل ہے  ، جو حتمی اور ناقابلِ تبدیل ہے ،  ہم اپنے اطمینانِ قلب کے لئے ، اپنی ہدایت کے لئے  اپنی ترتیل  بنا سکتے ہیں ، لیکن فوقیت اللہ کی ترتیل  کو ہی رہے گی ۔
  ٭٭٭٭٭٭آگے پڑھیں ٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "فہم الکتاب" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

پڑھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔