الکتاب اللہ کے الفاظ جو روح القدّس نے محمدﷺ تک پہنچائے ۔ دوستو ! تاکہ محمدﷺ انسانوں پر اللہ کی ہدایات تلاوت کریں اور انہیں الکتاب کا علم دیں جس سے اُن کاتزکیہ ہو اور وہ پاک ہوجائیں۔
دوستو ! میرے کسی بھی بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 20 مئی، 2019

سورۃ الفاتحہ -1 آیات 1 تا 7

سورۃ الفاتحہ میں اللہ کے 36 الفاظ  سے بننے والے 546 الفاظ ،    جو الکتاب کی  آیات   میں20،108 مرتبہ آئے ۔  اِن 36 الفاظ کے بنیادی فہم   بھی 36 ہی ہیں ۔ 546 نہیں :
اللہ کی آیات کا فہم   اپنی زبان میں سمجھتے وقت :
1-  ضمیر ، زمانہ  ، حرف   کے اشتراک سے    بنیادی فہم تبدیل نہیں ہونا چاھئیے ۔
2- اردو  میں رواں ترجمہ کرنے کے لئے  ، ایسے اردو کے الفاظ استعمال کرنا چاہیں کہ اللہ کا بنیادی حکم یا خبر تبدیل نہ ہو ۔
3- ادبی مترادفات کے استعمال سے حتیٰ الامکان احتراز کیا جائے ۔
4- اور نہ ہی متشابھات کا سہارا لے کر محکمات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
5-   اگر  انسانی ترجمے میں اللہ کا فہم نہیں بن رہا تو اللہ کا عربی لفظ  ترجمے میں رکھنے سے اللہ کا مواضع تبدیل کرنے کا جرم سرزد نہیں ہوگا ۔
اب فہم الکتاب کی طرف چلتے ہیں :
٭٭٭٭٭٭٭٭
الکتاب کی ابتدائیہ دعا ، جو روح القدّس نے محمدﷺ کو انسانوں پر تلاوت کرنے کے لئے اللہ کی طرف  سے بتائی:
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
خصوصی  دُھتکارے ہوئے  خاص شیطان سے  اللہ کی پناہ کے ساتھ ۔
اللہ کی صفات کی پہچان :
 سورۃ 1 ۔ آیت ۔1 ۔ بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ  
اللہ کی الرحیم اور الرحمان  صفات کے ساتھ
سورۃ 1 ۔ آیت ۔2 ۔  الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
 اللہ (کی) خصوصی خوبی   کے لئے (جو)    خاص عالمین کا ربّ ہے ۔
سورۃ 1 ۔ آیت ۔3۔الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ 
 خاص رحمان او ر خاص رحیم
سورۃ 1 ۔ آیت ۔4 ۔  مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ 
 خاص دین  کے (عام) دن کا مالک ہے  ۔
 اللہ سے اپنے لئے   عبد ، استعان اور ہدایت کی طلب  :
سورۃ 1 ۔ آیت ۔5 ۔  إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 
صرف ہم تیرے ہی عبد(میں)  ہیں  اور صرف  ہم تیری اعانت (میں)  ہیں ۔ 

  سورۃ 1 ۔ آیت ۔6 ۔  اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ
 ہماری ہدایت  خاص استقامت والے راستے پر کر !
 اِس آیت میں  میرے فہم کے مطابق ، اللہ  ہمیں دو طرح کے     الَّذِينَ آمَنُوا کی طرح صراط  کی طرف ہدایت مانگنے کا کہہ رہا ہے :
سورۃ 1 ۔ آیت ۔7 ۔  صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
 راستہ اُن لوگوں کا  (1) جن کے اوپر  تو نے انعام کیا ۔ (2) دوسرے وہ جن  کے اوپر  تیرا خصوصی غضب ہوا اور وہ  خصوصی گمراہ نہیں ہوئے۔
(بلکہ توبہ کرنے کے بعد واپس تیری طرف رجوع کرنے والے بن گئے )
بہت سے دوستوں نے میری اِس فہم  پر مجادلہ کیا ۔
 کیوں کہ الکتاب کے ہر ترجمے میں  اللہ  کے لفظ غَيْرِ‌   کا ترجمہ ، سب  مترجمین نے  نہیں  کیا۔ اور میں نے تصریف الآیات الکتاب سے  دوسرے کیا ۔
 جب میں نے   اِس آیت میں  نہیں کے بجائے دوسرا رکھا ، تو پھر یقیناً اپنے اِس فہم کو تقویت دینے کے لئے میں نے ایسے  الَّذِينَ آمَنُوا کو الکتاب میں تلاش کیا کہ جو    اپنے غلط افعال و اعمال کی بنیاد پر  الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ سے  ہٹے ، چنانچہ اُن پر اللہ کا غضب ہو ا۔ اُنہوں نے اپنے افعال و اعمال کا محاسبہ کیا اور اپنے  غلط افعال و اعمال  پر اللہ سے توبہ طلب کی اور دوبارہ   الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ   پر        الَّذِينَ آمَنُوا کی صف میں آکھڑے ہوئے ۔ 

روح القدّس نے اللہ کا حکم    الصَّابِرِينَ کی آزمائش  کے لئے محمدﷺ تک پہنچایا :

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴿18:7

 صرف ہم نے جو الارض پر ہے اُسے اُن کے لئے  زینت قرار دیا ، تاکہ ہم اُن کو آزمائیں کہ   اُن میں احسن  عمل کِس کے ہیں؟
٭۔فعل و عمل  میں فرق ۔
 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ  (61:3)
فعل دوسروں کے لئے اور عمل اپنے لئے ۔
  
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿2:155  

 اور ہم تمھیں (خاص صبر کرنے والوں)  ضرور آزمائیں گے   شئے کے ساتھ خصوصی خوف میں ، اور خصوصی بھوک میں اور خصوصی اموال کے نقص میں اور خاص نفس میں اور خاص ثمرات میں ! خاص صبر کرنے والوں کو بشارت ہو ۔

 الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿2:156
خاص لوگ جب اُن پر  مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت  پڑتی ہے  ، تو وہ کہتے ہیں ، "صرف ہم اللہ کے لئے ہیں اور صرف ہم اُس کی طرف  (بذریعہ توبہ) رجوع کرنے والے ہیں" ۔

أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿2:157
وہ لوگ اُن کے اوپر اُن کے ربّ کی طرف سے   صَلَوَاتٌاور   رَحْمَةٌ ہے  اور وہ لوگ خصوصی ہدایت یافتہ ہیں ۔

٭- عذابِ آزمائش  (میری ترتیل)
إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿68:17 وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿68:18
 صرف ہم نے اُنہیں آزمایا جیسے ہم نے أَصْحَابَ الْجَنَّةِ   کو  آزمایا ۔ جب وہ (معتدل اور غیر معتدل میں ) تقسیم ہوئے   تاکہ وہ اُس میں     صبح  توڑنے والے بن جائیں  ۔ اور وہ استثنا  نہیں کریں گے ۔
أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ ﴿68:24
 اور  یہ کہ  اُس    ( الْجَنَّةِ) میں (پھل /کھیتی توڑنے کے ) خصوصی دن  کوئی مسکین نہ داخل ہونے پائے

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿68:19
  پس تیرے ربّ کی طرف سے  اُس    ( الْجَنَّةِ) پر ایک  طواف   کرنے والی نے  طواف کر گئی   اور جب وہ سو رہے تھے ۔ 

كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿68:33
عذاب ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اور  عذاب الآخرت اِس سے بھی  اکبر ہے ۔ اگر اُنہیں علم ہوجائے !
قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿68:29
 وہ بولے ، ہمارے ربّ کی سبحان ہے ، صرف ہم ہی  ظالمین  ہوگئے 
  فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ ﴿68:30  
 جبکہ اِس سے قبل وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کررہے تھے ۔
قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿68:28
اُن میں ایک معتدل شخص بولا، کیا  میں نے تمھیں  نہیں بولا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟
اُن غیر متعدلأَصْحَابَ الْجَنَّةِ    نے  تسبیح شروع کی :

 قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ﴿68:31  
 بولے ، افسوس صرف ہم طاغوت بن گئے ۔
عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴿68:32
ممکن ہے ہمارا ربّ اِس (عذابِ آزمائش )  میں سے ہمارے لئے خیر بدل دے  ، صرف ہم اپنے ربّ کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔
ایک وضاحت : آزمائش  پر پورا نہ اترنے کی صورت  میں خصوصی غضب کی طرف   ، جہاں احساس ہوتے ہی توبہ کی اور خصوصی گمراہی سے بچ گئے  یا توبہ نہ کی اور اللہ کے خصوصی عذاب میں مبتلاء ہو کر خصوصی گمراہ ہو گئے ۔یاد رکھیں ، خصوصی عذاب اور خصوصی گمراہی کے درمیان اللہ سے توبہ کے بعد رجوع  ہے ۔ یہ اہم نکتہ  الَّذِينَ آمَنُوا کو ازبر ہونا چاھئیے  ۔بُرے اعمال سے  توبہ کے لئے اللہ نے اپنا میعار مقرر کیا ہے ۔
٭- وہ بُرے  اعمال جو معلومات کی کمی سے اچھے اعمال میں شامل کر دیئے جاتے ہیں ۔
٭- وہ جن پر اللہ نے  اِس دنیا ہی میں سزائیں تجویز کی ہیں کیوں کہ    عذاب الآخرت    اکبر ہے!

  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلا مضمون : سورۃ البقرۃ ۔  آیت 1 تا 6   
پہلے مضامین :

خیال رہے کہ "فہم الکتاب" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

پڑھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔